سستی اورکاہلی چندلمحوں کی ہو چند دنوں کی ہو چند مہینوں کی ہویاپھر چند سالوں کی یہ ایک میٹھازہر ہے بہت سے لوگ خوشی خوشی کھاتے رہتےہیں اورآخران کامستقبل انجان سی موت مرجاتاہے انسان کوہوش اس وقت آتی ہے جب وقت گزرچکاہوتاہے پھرانسان اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دیتاہےاپنے ضمیرکومطمٔن کرنےکی کوشش کرتاہے لیکن انسانی ضمیرکبھی جھوٹ نہیں بولتا یوں انسان خود کو ملامت کرتارہتاہے اب پچھتاۓ کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کورٹ میں اچھے وکیل کو فیس دے کرجھوٹاکیس تو جیتا جاسکتا ہے لیکن اپنے ضمیر کے سامنے انسان کبھی فتح یاب نہیں ہوسکتا حضورﷺ نے ارشاد فرمایا بندہ تقوے کی رُوح کو اس وقت تک نہیں پا سکے گا جب تک وہ اپنے ضمیر کی خلش کا احترام نہیں کرے گا۔ ضمیر بیچارہ تو اپناکام کرتا رہتا ہے لیکن بے حس انسان اس کی سن کربھی ان سنی کردیتاہے بات سمجھ آبھی جاتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کانفس اورانا آڑے آجاتے ہیں ضمیرجاگ ہی جاتاہےاگر زندہ ہو اقبال کبھی گناہ سے پہلے تو کبھی گناہ کے بعد اشفاق احمد کہتے ہیں وقت اورسمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کوملتے ہیں کیونکہ اکثروقت پر سمجھ نہی
غلطی سرزدہونا اتنابرا نہیں جتنا غلطی پرڈٹے رہنا یہ غلطیاں اورگناہ ہی ہیں جو بعض اوقات انسان کو جنت کی راہ دکھلادیتے ہیں حضرت عمرٖؓکادورخلافت ہے وہ عمر جس کے نام سے شیطان بھی بھاگتاتھا گلی میں تشریف لارہے ہیں سامنے ایک شخص بغل میں شراب کی بوتل لئےآرہا ہے اب اس نےدیکھا کہ عمرؓ آرہےہیں شراب پکڑی جائے گی اورسزاوہ تو عمر ؓ نے موقع پرہی دے دینی ہے وہ شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوا اورعرض کی اے اللہ آج اگر تو مجھے عمرؓ سے بچالے تو میں شراب پینے سے توبہ کرتا ہوں اتنے میں عمرؓ بھی سر پرآن پہنچے فرمایا تمھارے پاس یہ کیا ہے وہ شخص کہنے لگا سرکہ کی بوتل ہے عمر ؓ شراب کی بوتل ہاتھ میں پکڑتے ہیں چیک کرتے ہیں تو واقعی شراب کی بوتل سرکہ بن چکی ہوتی ہے جوں جوں سائنس نے ترقی کی انسان کا طرززندگی ترقی کرتا گیا خچروں اوراونٹوں پر سفرکرنے والاانسان آج ہوائی جہازمیں اڑرہا ہے کنواں ،جھیل اورندی کے کنارے جھونپڑی لگا کر بسنے والا انسان آج بلند ترین عمارتوں میں بس رہاہے ہڈیوں پتھروں اورپتوں پر لکھنے والا انسان آج کمپیوٹر استعمال کررہا ہےاتنی ترقی کے باوجود بھی انسان اپنی مشکلا ت پر قابونہیں پاسکا ذہنی